بہت ہی سخی اور فیاض آدمی تھے‘ کسی سائل کو بھی اپنے دروازے سے نامراد نہیں لوٹاتے تھے۔ ایک دن ان کے پاس صرف تین ہی اشرفیاں تھیں اور یہ اس دن روزہ سے تھے۔ اتفاق سے اس دن تین سائل دروازہ پر آئے اور آپ نے تینوں کو ایک ایک اشرفی دے دی پھر سو رہے۔
امداد غیبی کی اشرافیاں: حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی باندی کا بیان ہے کہ یہ بہت ہی سخی اور فیاض آدمی تھے‘ کسی سائل کو بھی اپنے دروازے سے نامراد نہیں لوٹاتے تھے۔ ایک دن ان کے پاس صرف تین ہی اشرفیاں تھیں اور یہ اس دن روزہ سے تھے۔ اتفاق سے اس دن تین سائل دروازہ پر آئے اور آپ نے تینوں کو ایک ایک اشرفی دے دی پھر سو رہے۔ باندی کہتی ہیں کہ میں نے نماز کے بعد انہیں بیدار کیا اور وہ وضو کرکے مسجد میں چلے گئے۔ مجھے ان کے حال پر بڑا ترس آیا کہ گھر میں نہ ایک پیسہ ہے نہ اناج کا ایک دانہ‘ بھلا یہ روزہ کس چیز سے افطار کریں گے؟ میں نے ایک شخص سے قرض لے کر رات کا کھانا تیار کیا اور چراغ جلایا۔ پھر میں جب ان کے بستر کو درست کرنے کیلئے گئی تو کیا دیکھتی ہوں تین سو اشرفیاں بستر پر پڑی ہوئی ہیں۔ میں نے ان کو گن کر رکھ دیا۔ وہ نماز عشاء کے بعد جب گھر میں آئے اور چراغ جلتا ہوا اور بچھا ہوا دستر خوان دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا کہ آج تو ماشاء اللہ میرے گھر میں اللہ کی طرف سے خیر ہی خیر ہے۔ پھر میں نے انہیں کھاناکھلایا اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے‘ آپ ان اشرفیوں کو یونہی لاپرواہی کے ساتھ بستر پر چھوڑ کر چلے گئے اور مجھ سے کہہ کر بھی انہیں گئے کہ میں ان کو اٹھا لیتی آپ نے حیران ہوکر پوچھا کہ کیسی اشرافیاں؟ میں تو گھر میں ایک پیسہ بھی چھوڑ کر نہیں گیا تھا۔ یہ سن کر میں نے ان کا بستر اٹھا کر جب انہیں دکھایا کہ یہ دیکھ لیجئے اشرفیاں پڑی ہوئی ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے لیکن انہیں بھی اس پر بڑا تعجب ہوا۔ پھر سوچ کر کہنے لگے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری امداد غیبی ہے۔ میں اس کے بارے میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں۔ (حلیۃ الاولیاء ج10 ص129، شواہد النبوۃ ص218)
جنت میں جانے والا پہلا مال دار: حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے مال داروں میں سب سے پہلے عبدالرحمٰن بن عوف جنت میں داخل ہوں گے۔ (کنزالعمال ج12 ص 293)
ماں کے پیٹ ہی سے سعید: حضرت ابراہیم بن عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ بے ہوش ہوگئے اور کچھ دیر بعد وہ ہوش میں آئے تو فرمایا کہ ابھی ابھی میرے پاس دو بہت ہی خوفناک فرشتے آئے اور مجھ سے کہا کہ تم اس خدا کے دربار میں چلو جو عزیز و امین ہے۔ اتنے میں ایک دوسرا فرشتہ آگیا اور اس نے کہا کہ ان کو چھوڑ دو یہ تو جب اپنی ماں کے شکم میں تھے اسی وقت سے سعادت آگے بڑھ کر ان سے وابستہ ہوچکی تھی۔ (کنزالعمال ج15 ص203)
بدنصیب بوڑھا: حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ کوفہ کے کچھ لوگ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی شکایات لے کر امیرالمومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے دربار خلافت مدینہ منورہ میں پہنچے۔ حضرت امیرالمومنین نے ان شکایات کی تحقیقات کیلئے چند معتمد صحابیوں کو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ کوفہ بھیجا اور یہ حکم فرمایا کہ کوفہ شہر کی ہر مسجد کے نمازیوں سے نماز کے بعد یہ پوچھا جائے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیسے آدمی ہیں؟ چنانچہ تحقیقات کرنے والوں کو اس جماعت نے جن جن مسجدوں میں نمازیوں کو قسم دے کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہٗ کے بارے میں دریافت کیا تو تمام مسجدوں کے نمازیوں نے ان کے بارے میں کلمہ خیر کہا اور مدح و ثناء کی‘ مگر ایک مسجد میں فقط ایک آدمی جس کا نام ’’ابوسعدہ‘‘ تھا۔ اس نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تین شکایات پیش کیں اور کہا۔’’یہ مال غنیمت برابری کے ساتھ تقسیم نہیں کرتے اور خود لشکروں کے ساتھ جہاد میں نہیں جاتے اور مقدمات کے فیصلوں میں عدل نہیں کرتے۔ یہ سن کرحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فوراً ہی یہ دعا مانگی۔ اے اللہ! اگر یہ شخص جھوٹا ہے تو اس کی عمر لمبی کردے اور اس کی محتاجی کو دراز کردے اور اس کو فتنوں میں مبتلا کردے۔ عبدالملک بن عمیر تابعی کا بیان ہے کہ اس دعا کا میں نے یہ اثر دیکھا کہ ’’ابوسعدہ‘‘ اس قدر بوڑھا ہوچکا تھا کہ بڑھاپے کی وجہ سے اس کی دونوں بھنویں‘ اس کی دونوں آنکھوں پر لٹک پڑی تھیں اور وہ در بدر بھیک مانگ مانگ کر انتہائی فقیری اور محتاجی کی زندگی بسر کرتا تھا اور اس بڑھاپے میں بھی وہ راہ چلتی ہوئی جوان لڑکیوں کو چھیڑتا تھا اور ان کے بدن میں چٹکیاں بھرتا رہتا تھا جب کوئی اس سے اس کا حال پوچھتا تھا تو وہ کہا کرتا تھا کہ میں کیا بتاؤں؟ میں ایک بڈھا ہوں جو فتنوں میں مبتلا ہوں کیونکہ مجھ کو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہٗ کی بددعا لگ گئی ہے۔ (حجۃ اللہ علی العالمین‘ بحوالہ: بخاری و مسلم‘ بیہقی)
بے مثال مچھلی: حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ تین سو مجاہدین اسلام کے لشکر پر سپہ سالار بن کر ’’سیف البحر‘‘ میں جہاد کیلئے تشریف لے گئے۔ وہاں فوج کا راشن ختم ہوگیا یہاں تک کہ یہ چوبیس چوبیس گھنٹے میں ایک ایک کھجور بطور راشن کے مجاہدین کو دینے لگے پھر وہ کھجوریں بھی ختم ہوگئیں۔ اب بھوکا رہنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ اس موقع پر آپ کی یہ کرامت ظاہر ہوئی کہ اچانک سمندر کی طوفانی موجوں نے ساحل پر ایک بہت بڑی مچھلی کو پھینک دیا اور اس مچھلی کو یہ تین سو مجاہدین کی فوج اٹھارہ دنوں تک شکم سیر ہوکر کھاتی رہی اور اس کی چربی کو اپنے جسموں پر ملتی رہی یہاں تک کہ سب لوگ تندرست اور خوب فربہ ہوگئے۔ پھر چلتے وقت اس مچھلی کا کچھ حصہ کاٹ کر اپنے ساتھ لے کرمدینہ منورہ واپس آئے اور حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں بھی اس مچھلی کا ایک ٹکڑا پیش کیا جس کو آپ ﷺ نے تناول فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اس مچھلی کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا رزق بنا کر بھیج دیا۔ یہ مچھلی کتنی بڑی تھی لوگوں کو اس کا اندازہ بتانے کیلئے امیر لشکر ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حکم دیا کہ اس مچھلی کی دو پسلیوں کو زمین میں گاڑھ دیں چنانچہ دونوں پسلیاں زمین میں گاڑھ دی گئیں تو اتنی بڑی محراب بن گئی کہ اس کے نیچے سے کچادہ بندھا ہوا اونٹ گزر گیا۔ (بخاری شریف ج2، ص626)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں